۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
"خمینی یا موت" بمناسبت قیام مقدس 15 خرداد

حوزہ / محترم محمد احمد فاطمی نے امام خمینی (رہ) اور 15 خرداد کے شہداء کی برسی کی مناسبت سے ایک تحریر لکھی ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | "خمینی یا موت" ایک ایسا عمیق و دقیق نعرہ تھا، جس نے کلیدِ فاتح الباب کا کردار ادا کیا۔ قیامِ خونینِ 15 خرداد اور شہدائے عظیم المرتبت 15 خرداد کی حیثیت انقلاب اسلامی کی تاریخ میں وہی ہے، جو ان لوگوں کی ہے جنہوں نے غربتِ دین کے زمانے میں دین مبین کی بلاغرض نصرت کی۔ وہ عمیق ربط جو امام اور عوام کے درمیان تھا، جس کو شہید مطہری رح نے پیرس سے واپسی پہ ایمانِ چہارگانہ میں سے ایک شمار کرتے ہوئے ایمان بالمومنین قرار دیا تھا، وہ انقلاب اسلامی کی نہضت کے عروج کا ثمرہ ہی نہیں تھا بلکہ وہ اس نہضتِ احیائے امامت کا نقطہ آغاز بھی تھا۔

جب حضرت امام خمینی رح کو گرفتار کیا گیا اور یہ خبر عوام الناس میں پہنچی تو بنا کسی مرکزی قیادت کی کال کے، بنا کسی حربی، تنظیمی یا گروہی دعوت کے، صرف امام و امت کے مابین قائم الہی عہد کے تحت امت نے پہلے قم المقدس پھر تہران اور دیگر جگہوں پر "یا موت یا خمینی" کے عاشورایی شعار کے ساتھ تا شہادت ثبات قدم کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوق الادراک قیام کیا۔

یہ پندرہ خرداد کا مقدس و مخلص قیام تھا جس نے نہ صرف ایران بلکہ اکناف عالم کے اہل اسلام ق اہل درد کو بولنے پہ مجبور کر دیا، دوسرے لفظوں میں پندرہ خرداد کا قیام حضرت امام خمینی رح کی تحریک کو جہانی بنانے میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا، پورہ دنیا سے شاہ ملعون پہ دباؤ بڑھنا شروع ہوا، منجملہ حوزہ علمیہ نجف سے آقای خوئی نے اپنا معروف بیان جاری فرمایا کہ تمام افراد چاہے وہ جس بھی حیثیت اور جس بھی عہدے پر ہوں سب کے لیے بالعموم اس ظالم شہنشاہ کی حمایت کرنا ممنوع ہے۔ اسی طرح پاکستان میں جہاں تشیع کے صاحب نظر علماء اس پہ حساس تھے وہیں سید ابوالاعلی مودودی نے اپنے جماعتی مجلے میں شہدائے پندرہ خرداد اور حضرت امام کی حمایت میں لکھنا شروع کیا۔

وہ امام جو شہید مصطفی خمینی رح کی شہادت پہ کسی کے روبرو اشکبار نہ ہوئے، جب ان کو شہدائے 15 خرداد کی خبر ملی تو بے ساختہ آپ نے ان مظلوم مجاہد شہداء پر گریہ کیا۔

اگر ہم چاہیں کہ اس عظیم المرتبت قیام 15 خرداد کے عمق کو سمجھیں تو اس کا بہترین منبع خود حضرت امام خمینی رح اور رہبر معظم انقلاب اسلامی کا کلام ہے۔

انقلاب اسلامی کی تاریخ کا یہ واحد واقعہ ہے جس پہ امام خمینی رح نے فرمایا تھا کہ "میں شہدائے پندرہ خرداد کےلیے عمومی اور ہمشگی سوگ کا اعلان کرتا ہوں"۔ یہ جملہ کوئی جذباتی جملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتہائی خوبصورت اور عمیق جملہ ہے، جو قیام پندرہ خرداد کو ایک رول ماڈل اور دائمی سرمشق کے طور پر متعارف کرواتا ہے۔

اس قیامِ مقدس کو بسیجی نوجوانوں کو خصوصاً نسل موجود و آئندہ کو سمجھنا ہوگا، کیونکہ اس قیام میں قیام للہ کی کلید ہے، اور فتح اسلام کی نوید ہے، جیسا کہ خود امام رح نے ہی کہا تھا کہ ملت‏‎ ‎‏عظیم الشأن ایران با قیام و نثار خون فرزندان عزیز خویش، راه قیام را برای نسل‌های آینده‏‎ ‎‏گشود و ناشدنی‌ها را شدنی کرد. اے ملت عظیم الشان ایران ! آپ کے عظیم بیٹیوں اور بیٹیوں کے قیام اور خون مظلوم نے آئندہ نسلوں کےلئے قیام کی بند راہ کو کھول دیا ہے اور جو شاید ویسے ناممکن سا نظر آتا تھا اس کو ممکن بنا دیا ہے۔

قیام پندرہ خرداد کو جیسا کہ ہم نے لکھا کہ اس کو ہر سرزمین ہے انقلابی نوجوان بیٹوں اور بیٹیوں کوبطور سرمشق سمجھنا اور سمجھایا جانا چاہیے اس کی وجہ یہی ہے کہ خود امام خمینی رح نے ۱۳۶۱ ش ہ کے سالروز قیام پندرہ خرداد پہ اس کو یوم اللہ قرار دیا اور اس کو زندہ رکھنے کا حکم دیا۔

۱۵ خرداد کا دن جہاں ایک جانب مبداء نہضت انقلاب اسلامی کا دن ہے وہیں یہ امامِ عظیم الشان انقلاب کے بعد مقام معظم رہبری کی قیادت کے آغاز کا دن بھی ہے۔ یہ دونوں مناسبتیں ہم کو یہ یاد دلاتی ہیں کہ امام و امت کا، رہبر و ملت کا، قیادت و رعیت کا، ولی و مومنین کا آپس میں کیسا ربط ہوتا ہے۔ جہاں ایک جانب دفاعِ نظام اسلامی اوجب ترین فریضہ ہے، وہیں دفاعِ حرمتِ رکن اساسی نظام اسلامی یعنی رہبری کی حرمت کا دفاع بھی اساسی فریضہ ہے۔ وہ فریضہ جو عصرِ حضورِ معصومین علیہم السلام میں امت نے ادا نہ کیا اور اس کا نتیجہ کہیں بیت الشرف پہ حملہ، کہیں امیر المومنین علیہ السلام کی اسارت، کہیں جنگ سہ گانہ جمل و صفین و نہروان، کہیں امیر المومنین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت، کہیں امام مجتبی علیہ السلام کی غربت و تنہائی اور کہیں واقعہ کربلا کی صورت میں نظر آتا ہے۔

جہاں ۲۵۵ سالہ زمانہ ایک جانب امت کے اس منفی کردار کو پیش کرتا ہے، جو امامت و رہبری اور امت کے درمیان تعلق کے بارے میں نظر آتا ہے، وہیں دوسری جانب قیام ِ ۱۵ خرداد امامت و امت کے درمیان اس تعلق کا وہ مثبت چہرہ پیش کرتا ہے، جس کو نہ صرف یاد رکھنے بلکہ آئندہ نسلوں تک پہنچانے اور مسلسل سرمشق بنا کر اپنانے کی ضرورت ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .